1 2 3 ہمارا کھویا ہوا سرمایہ

ہمارا کھویا ہوا سرمایہ


ہمارا کھویا ہوا سرمایہ 



قرون وسطی میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی وہ آج پک کر جوان ہو چکی ہے۔
موجودہ دور اسی فصل کو کاشت کرتے ہوئے اس کے گوناگوں فوائد سے مستفید ہو رہا ہے۔ مسلمان جب تک علمی روش پر قائم رہے سارے جہاں کے امام رہے۔ اور جونہی علم سے غفلت برتی ٫ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کا علمی ورثہ اپنے اندر ہونے والے بےشمار اضافہ جات کے ساتھ اغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے اور ہم انکے پیچھے علمی ، ثقافتی ، سیاسی اور سماجی معاشی میدانوں میں در در کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔

2 جنوری 1492 ٔ کا تاریخی دن مغربی دنیا کے لیئے علم و فن تہذیب و تمدن اور سائنس وٹیکنالوجی کا تحفہ لئے طلوع ہوا۔ غرناطہ میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذہنی شکست خوردگی کی دلدل میں الجھ کر سو گئی اور عالم مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و اکتشافات پر سے ان کے موجدوں کا نام کھرچ کر انہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اسلامی اسپین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم عیسائی و یہودی طلباء مسلمانوں کا علمی وطیرہ اپنےساتھ اپنے ممالک کو لے گئے اور ہم غرناطہ میں سیاسی شکست کھانے کے بعد اسے مقدر کا لکھا کہتے ہوئے رو پیٹ کر بیٹھ رہے اور سیاسی میدان میں ہونے والی شکست کے بعد تعلیمی میدان سے بھی فرار کا راستہ اختیار کرلیا۔ اغیار نے ہمارے علمی ورثے سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوج ثریا تک جا پہنچے۔ غفلت کی نیند بے سدھ پڑی مسلمان قوم کو فقط ایک ٹہوکے کی ضرورت ہے، فقط اپنی میراث سے شناسائی ضروری ہے ، جس روز اس قوم نے اغیار کے قبضے میں گھری اپنی قیمتی متاع کو پہچان لیا یقیناً آپنے کھوئے ہوئے ورثے کے حصول کے لیے تڑپ اٹھے گی، وہ دن تاریخ عالم کا سنہری دن ھوگا۔۔۔۔
بیسویں صدی عالم اسلام کے لئے اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتیں لیئے آئی۔اس صدی میں میں جہاں کرۂ ارضی کے بیشتر مسلمان سیاسی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے وہاں علمی میدان میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نمودار ہوئے، لیکن مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف آزادی کے اثرات کو اپنے عوام کی پہنچ سے دور وکھا بلکہ صحیح فطری خطوط پر ان کی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام بھی نہ کیا، جس کی وجہ سے قحط الرجال کا مسٔلہ جوں کا توں برقرار رہا۔۔ اس وقت دنیا کی اکانومی کا بڑا انحصار تیل پیدا کرنے والے مسلمان ممالک پر ہے۔ عرب کی دولت مسلمانوں کی معاشی ابتری سے نجات اور عالمی سطح پر سیاسی تفوق کی بحالی کی لیئے بہترین مددگار ثابت ہو سکتی تھی مگر افسوس وہ بھی شاہی اللوں تللوں میں ضائع ہو گئ اور من حیث المجموع امت مسلمہ اس سے کوئی خاص فائدہ نہ اٹھا سکیعالم اسلام کے موجودہ زوال و انحطاط کا بنیادی سبب جہالت ، علمی روش سے کنارہ کشی اور صدیوں کی غلامی کے بعد ملبے والی آزادی کے باوجود جاہل حکمرانوں کا اپنی قوم کو حقیقی علوم انسانی کے حصول میں پس ماندہ رکھنا ہے۔ نئی نسل کی ذہانت صدیوں سے مسلط عالمی محکومی کے زیر اثر دب کر رہ گئی ہے۔ دور حاضر کے مسلم نوجوانوں کے تشکیک زدہ ایمان کو سنبھالا دینے کی واحد صورت یہ ہے کہ اسےاسلامی تعلیمات کی عقلی و سائنسی تفسیر و تفہیم سے آگاہ کرتے ہوئے سائنسی دلائل کے ساتھ مستحکم کیا جائے۔ قومی سطح پر چھائے ہوئے احساس کمتری کے خاتمے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان سائنسدانوں کے کارناموں سے شناسا کیا جائے تاکہ اس کی سوچ کو مثبت راستہ ملے اور وہ جدید سائنسی علوم کو اپنی متاع سمجھتے اپنے اسلاف کی پیروی میں  علمی و سائنسی روش اپنا کر پختہ علمی بنیادوں کے ساتھ احیائے اسلام کا فریضہ انجام دے سکے۔۔۔۔۔۔۔

ماخوذ

Post a Comment

0 Comments

مزاحیات بلاگ پر آپ کا استقبال کیا جاتا ہے