1 2 3 Aik gaai aur bakri | allama iqbal

Aik gaai aur bakri | allama iqbal

ایک گائے اور بکری
ایک چراگہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں

کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں

تھے اناروں کے بے شمار درخت
اور پیپل کے سایہ دار درخت

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں
طائروں کی صدائیں آتی تھیں

کسی ندی کے پاس ایک بکری
چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی

جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا
پاس ایک گائے کو کھڑے پایا

پہلے جھک کر اس کو سلام کیا
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا

کیوں بڑی ! بی مزاج کیسے ہیں
گائے بولی کے خیر اچھے ہیں

کٹ رہی ہے بری بھلی اپنی
ہے مصیبت میں زندگی اپنی

جان پر آ بنی ہے کیا کہیے
اپنی قسمت بری ہے کیا کہیے

دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں
رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں

زورچلتانہیں غریبوں کا
پیش آیالکھانصیبوں کا

آدمی سے کوئی بھلا ناکرے
اس سے پالا نا پڑے خدا کرے

دودھ کم دوں تو بڑبڑاتا ہے
ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے

ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے
کن فریبوں سے رام کرتا ہے

اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں
دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں

بدلے نیکی کے یہ برائ ہے
میرے اللّٰہ! تیری دہائی ہے



Post a Comment

0 Comments

مزاحیات بلاگ پر آپ کا استقبال کیا جاتا ہے