1 2 3
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبینِ نیاز میں طرب آشنائے خروش ہو،تو نوا ہے محرم گوش ہو وہ سرود کیا کہ چھپا…
غزل پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو غنچہ ہے اگر گُل ہو، گُل ہے تو گُلستاں ہو تُو خاک کی مُٹھّی ہے، اجزا کی حرارت سے برہم ہو، پریشاں ہو، وسعت میں …
ایک آرزو دُنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا ر! کیا لُطف انجمن کا جب دل ہی بُجھ گیا ہو شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی …
آفتاب (ترجمہ گایتَری) اے آفتاب! رُوح و روانِ جہاں ہے تُو شیرازہ بندِ دفترِ کون و مکاں ہے تُو باعث ہے تُو وجود و عدم کی نمود کا ہے سبز تیرے دم سے …
صدائے درد جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا، یاں تو اک قُرب فراق آ…
عقل و دِل عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھُولے بھٹکے کی رہنما ہُوں میں ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں کام دنیا میں رہبری ہے مرا …
ماں کا خواب (ماخوذ) بچوں کے لیے میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب بڑھا اور جس سے مرا اضطراب یہ دیکھا کہ مَیں جا رہی ہوں کہیں اندھیرا ہے اور راہ مِلتی …
شمع و پروانہ پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع! پیار کیوں یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے آدابِ عشق تُو نے سِکھائے ہیں …
خُفتگانِ خاک سے استفسار مہرِ روشن چھُپ گیا، اُٹھّی نقابِ رُوئے شام شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہُوا گیسُوئے شام یہ سیَہ پوشی کی تیّاری کسی کے غم میں ہے محفلِ قُد…
پرندے کی فر یاد بچوں کے لیے آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ باغ کی بہاریں، وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا، اپنی…
ابرِ کوہسار ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا ابرِ کُہسار ہوں گُل پاش ہے دامن میرا کبھی صحرا، کبھی گُلزار ہے مسکن میرا شہر و ویرانہ مرا، بحر مرا، بَن میرا…
ایک گائے اور بکری ایک چراگہ ہری بھری تھی کہیں تھی سراپا بہار جس کی زمیں کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں تھے انارو…
ھندوستانی بچوں کا قومی گیت چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا …
جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں …
’’ جواب ِ شکوہ ‘‘ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر …
مزاحیات بلاگ پر آپ کا استقبال کیا جاتا ہے
Social Plugin